نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے ، نہ قفس نہ آشیانہ
شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی
ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے
طریقِ عشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سُن
ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے
جگہ ہے رحم کی یار ایک ٹھوکر اس کو بھی
شہیدِ ناز کا ترے مزار راہ میں ہے
تلاشِ یار میں کیا ڈھونڈیے کسی کا ساتھ
ہمارا سایہ ہمیں ناگوار راہ میں ہے
بہت سی ٹھوکریں کھلوائے گا یہ حسن اُن کا
بتوں کا عشق نہیں کوہسار راہ میں ہے
اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ ، ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں!
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks