چاندنی غازۂ پائے جولاں
کہکشاں جادۂ ابنِ آدم
دیکھتی رہ گئی محرابِ حرم
ہائے انسان کی انگڑائی کا خم
جب بھی اوہام مقابل آئے
مثلِ شمشیر چلی نوکِ قلم
سوکھے ہوئے پتّوں کے جہاں ڈھیر ملے ہیں
دیکھا تھا وہیں سیلِ رواں موسمِ گل کا
بیتے لمحے دھیان میں آ کر مجھ سے سوالی ہوتے ہیں
تو نے کس بنجر مٹّی میں من کا امرت ڈول دیا
دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلا انمول دیا
پیروں میں زنجیریں دالیں ہاتھوں میں کشکول دیا
روز لاتی ہے ان کہے پیغام
شہرِ خوباں سے کوچہ گرد ہَوا
یہ کیا کم ہے اس نے بخشا ایک مہکتا درد مجھے
وہ بھی ہیں جن کو بس رنگوں کا اک چمکیلا خول دیا
مجھ سا بے مایہ اپنوں کی اور تو کیا خاطر کرتا
جب بھی ستم کا پیکاں آیا، میں نے سینہ کھول دیا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks