اس کی ہر بات میں ہوتا ہے کسی بھید کا رنگ
وہ طلسمات کا پیکر ہے کہ اسرار کا شہر
مسکراتے رہیں سینے کے دہکتے ہوئے داغ
دائم آباد رہے درد کی سرکار کا شہر
ستارے مشعلیں لے کر مجھ بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں، جنگلوں میں شام ہو جائے
غم کی دیوار گری تھی جن پر
ہم وہ لوگ ہیں اے قصرِ اِرم
ایک تارہ بھی نہ پامال ہوا
ایسے گزرے رہِ افلاک سے ہم
جب پھول مرے چاکِ گریباں پہ ہنسے تھے
لمحہ وہی گزرا ہے گراں موسمِ گل کا
اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے گگن میں اپنا کاجل گھول دیا
اشکوں کی اُجلی کلیاں ہوں یا سپنوں کے کندن پھول
الفت کی میزان میں میں نے جو تھا سب کچھ تول دیا
میں ہوں شعلہ بجاں، چراغ بدست
کس خلا کی ہے رہ نورد ہَوا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks