Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
باقی ہے یہی ایک نشاں موسمِ گل کا
جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گل کا
گفتگو کے لئے عنواں بھی نہیں
بات کرنے پہ بھی مجبور ہیں دوست
اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا
آئنہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے
اڑتے بادل کے تعاقب میں پھرو گے کب تک
درد کی دھوپ میں نکلا نہیں کرتے گھر سے
جو بھی ہے طالبِ یک ذرّہ، اُسے صحرا دے
مجھ پہ مائل بہ کرم ہے تو مجھے دریا دے
رختِ جاں کوئی لٹانے اِدھر آ بھی نہ سکے
ایسے مشکل تو نہیں دشتِ وفا کے جادے
زنجیر بپا اگر گئے ہم
نغموں کی طرح بکھر گئے ہم
طعنِ اغیار سنیں آپ خموشی سے شکیبؔ
خود پلٹ جاتی ہے ٹکرا کے صدا پتھر سے
یاد کے دائرے کیوں پھیلتے جاتے ہیں شکیبؔ
اس نے تالاب میں کنکر ابھی پھینکا ہی نہیں
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks