ہم مصوّر تجھے ٹھہرائیں کہ شاعر ماجدؔ
عکسِ جاناں ہی بہ ہر حرف نہ لایا کیجے
لفظ اُس شوخ کے عشووں جیسے
ہم نے شعروں میں سجائے کیا کیا
کیوں نہ ہم اِس ادا پر ہی مرتے رہیں
چھیڑنا اور اُسے بدگماں دیکھنا
اُس کے پیکر سے اپنی یہ وابستگی
گُنگ لمحوں کے منہ میں زباں دیکھنا
ملہار کے سُر ہیں جس میں پنہاں
وُہ سازِ طرب بجا کے دیکھو
اُسی سے رقص میں ہے شاخِ آرزوئے وصال
ہیں جس ہوا سے شگفتہ یہ ماہ و سال ترے
نہ رہ سکیں گے چھپے یہ خطوط لُطف، جنہیں
بہ احتیاط تہ پیرہن چھپاؤ گے
پسِ خیال لئے شوخیِ گریز اپنی
ہوئی ہے شام تو اب رات بھر ستاؤ گے
غنچوں کی چٹک ہو جس پہ شیدا
وُہ زمزمہ اَب کے گنگناؤں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks