باہم طراوتِ شبِ راحت لٹائیں ہم
موسم سے یہ خراج کسی دم تو پائیں ہم
معراج ہے بدن کی یہ ساعت ملاپ کی
ہے پیاس جس قدر بھی نہ کیونکر مٹائیں ہم
کیونکر پئے حُصولِ ثمر مثلِ کودکاں
شاخِ سُرور کو نہ بعجلت ہلائیں ہم
یہ حرفِ گرم، تہِ حلق رُک گیا کیسا
سُلگ اُٹھی ہیں یہ کیونکر لب و زباں کی تہیں
وہ دِن بھی آئیں کہ با لطفِ دید ہم ماجدؔ
نظر کے حُسن سے باہم فضا میں رنگ بھریں
مثلِ خوشبُو در آؤ ہر در سے
مثلِ گُل اِس نظر میں لہراؤ
بچھڑ چلے ہو تو کیا پھر کبھی نہ آؤ گے
رُتوں کے رنگ سبھی ساتھ لیتے جاؤ گے
پھُول انوار بہ لب، ابر گہر بار ہوئے
پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے
چھیڑ کر بیٹھ رہے قصّۂ جاناں ماجدؔ
جب بھی ہم زیست کے ہاتھوں کبھی بیزار ہوئے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks