اُمڈے ہے حرف حرف میں کس شہ پہ اِن دنوں
ماجدؔ یہ لطفِ خاص جو تیرے سخن میں ہے
ہم پئے لُطف چھیڑ کر تُجھ کو
جو نہ سُننا تھا وُہ سُنا کرتے
گھِر کر بہ سحرِ قُرب بھلا اب کھنچے گا کیا
پگھلے بدن کے ساتھ مجھے تُو کہے گا کیا
ہے رواں لہو میں ترے ہی لمس کا ذائقہ
شب و روز اک یہی عکسِ خواب ہے سامنے
ہے تجھی سی پیاس اِسے بھی لختِ زمین جاں
یہی جو نظر میں تری سحاب ہے سامنے
مثلِ ماہ و شب ہم بھی
کیوں نہ ہوں بہم اَب کے
اُس سے نسبت تھی جیسے شب و ماہ سی
نِت نئے طور سے ہم نکھرتے رہے
ہم کو یک جا کیا اُس زرِ خاص نے
ہم کہ سیماب آسا بکھرتے رہے
اَب تو اپنا ہے ماجدؔ وُہ جس کے لئے
ہم بصد آرزو روز مرتے رہے
٭٭٭
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks