جو ناز کرے اُسے روا ہے
وُہ شوخ ہے، شنگ ہے، حسیں ہے
نسبت ہے یہی اب اُس سے اپنی
ہم خاتمِ چشم، وہ نگیں ہے
زندہ رہے جو تُجھ سے بچھڑ کر بھی مُدّتوں
ہم لوگ کس قدر تھے جگر دار ہو گئے
ماجد ہے کس کا فیضِ قرابت کہ اِن دنوں
پودے سبھی سخن کے ثمر دار ہو گئے
چھپنا پسِ ابر چاند جیسا
لہروں سا سرِ نظر اُچھلنا
سر سے تا پا حجاب سا وُہ
کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ
سب تلخ حقیقتوں پہ حاوی
رہتا ہے نظر میں خواب سا وُہ
ہُوں جیسے، اُسی کے دم سے قائم
تھامے ہے مجھے طناب سا وُہ
ماجدؔ ہو یہ جُستجو مُبارک
ہاتھ آ ہی گیا سراب سا وُہ
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks