ہونٹ بے رنگ ہیں، آنکھیں ہیں کھنڈر ہوں جیسے
مُدّتیں بِیت گئیں جسم کو بیدار ہوئے
جب بھی لب پر کسی خواہش کا ستارا اُبھرا
جانے کیا کیا ہیں اُفق مطلعِ انوار ہُوئے
چاہت کا وہ سِحر تُجھ پہ پھونکوں
رگ رگ میں قیامتیں مچاؤں
مخفی پسِ لب کلی کلی کے
جو راز ہے، وُہ تجھے بتاؤں
تو نمایاں ہے یُوں نگاروں میں
آئنہ جیسے ریگ زاروں میں
پھُوٹتی ہے جو کنجِ لب سے ترے
آگ ایسی کہاں چناروں میں
اشک در اشک ہوں عنواں تیرے
آئنوں میں تجھے اُترا دیکھوں
دیکھ کر چاند اُفق پر اُبھرا
تُجھ کو دیکھوں ترا ماتھا دیکھوں
جو سو چکے تھے وُہ جذبے جگا دئیے تُو نے
نظر میں کیا یہ الاؤ جلا دئیے تُو نے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks