تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں
وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں
ظلمت کا پھول مَے کے اجالے میں آ گرا
ہستی کا راز میرے پیالے میں آ گرا
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا
ہر منظرِ حسیں پہ دھندلکا سا چھا گیا
دل کا ہجومِ غم سے عدم اب یہ حال ہے
دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا
گل و غنچہ کو ہے ان سے عقیدت اس لئے گہری
تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
ایک عنوان کا تجسس ہے کہانی کے لئے
ایک صدمے کی ضرورت ہے جوانی کے لئے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks