غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے
گزر گئی ہے مگر جاں کئی سے گزری ہے
گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں
بڑے دلچسپ اور شاداب رومانوں میں رہتا ہوں
گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں
بڑے دلچسپ اور شاداب رومانوں میں رہتا ہوں
ابھی تو اس کی آنکھوں نے لیا ہے جائزہ دل کا
ابھی تو ابتدائے داستاں تک بات پہنچی ہے
دیکھی نہیں ہے تو نے کبھی زندگی کی لہر
اچھا تو جا عدم کی صراحی اٹھا کے لا
پھر آج عدم شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سرِ شام میں کچھ سوچ رہا ہوں
میں نے جب ساز چھیڑنا چاہا
خامشی چیخ اٹھی ، صدا ہوں میں
حشر کی صبح تک تو جاگوں گا
رات کا آخری دیا ہوں میں
بس انتہا ہے چھوڑئیے بس رہنے دیجئے
خود اپنے اعتماد سے شرما گیا ہوں میں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks