بجھ گئیں حسرتوں کی شمعیں بھی
آندھیاں چل پڑی ہیں کچھ ایسے
گردشِ خوں کو تیز کرتا ہے
گیت اٹھے جو پیار کی نے سے
ایک مسکان کا فریب تو دے
نفرتیں بھی ہزار کر لینا
کتنا مہنگا پڑا ہے آسی جی
عقل پر انحصار کر لینا
وہ اک دن اتفاقاً آ گیا تھا
اور اب جانا بھی چاہے، جا نہ پائے
میں آج خوفِ خدا سے محروم ہو گیا ہوں
کئی خداؤں کا خوف اب مجھ کو مارتا ہے
دمِ سرافیل ہے نقیبِ جہانِ نو ہے
وہ ایک جذبہ کہ سر دلوں میں ابھارتا ہے
اپنی تکلفات کی ہوتی ہے چاشنی
اچھا ہے کچھ حجاب ابھی درمیاں رہے
غم ہزاروں دِلِ حزیں تنہا
بوجھ کتنے ہیں اور زمیں تنہا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks