شہر پہ چھایا ہے سناٹا
کیا جانے کب کیا ہو جائے
میں ہی دیوانہ سہی لوگ تو فرزانے ہیں
کیوں حقائق میں ملا دیتے یہ افسانے ہیں
ایک وہ لوگ کہ صحراؤں کو رونق بخشیں
ایک ہم ہیں کہ بھرے شہر بھی ویرانے ہیں
لوگ مشینی دنیا کے، انسان نہیں کل پرزے ہیں
تھل کی ریت، چناب کی موجیں رہ گئی ایک کہانی سی
بات بنانے کے سَو ڈھب ہیں
وہ مجھ سے کچھ تو فرماتا
باتوں باتوں میں ہے آسی
بڑی بڑی باتیں کہہ جاتا
ابھی ہے درد کی دولت سے مالا مال دل اپنا
ہزاروں تیر باقی ہیں رفیقوں کی کمانوں میں
ہم نے کچھ درد پائے ہیں ایسے
ہوں کسی کے نہ اے خدا ویسے
تیرے خم میں نشہ پرایا ہے
یار پیاسے بھلے ہیں اس مے سے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks