وہ جو زخم تھا سو مٹا دیا، وہ جو پیار تھا سو بھلا دیا
وہ جو درد تھا سو لٹا دیا، پہ کسک سی ایک بچی رہی
وہ قرار تھا کہ فرار تھا، اسے اپنے آپ سے پیار تھا
وہ عجیب سینہ فگار تھا، جسے خود سے بے خبری رہی
یہ چراغِ جاں کا جو دود ہے، سَرِ سَر سپہرِ کبود ہے
یہ جمالِ بود و نبود ہے، یہاں روشنی سی ڈھکی رہی
چھوڑ! تیری بلا سے، مؤقف مرا
اے گراں گوش منصف! سنا فیصلہ
آنکھوں میں اندیشۂ فردا جھانک رہا ہے
چہروں پر کربِ آگاہی آن بسا ہے
سرِ دیوار لکھے ہیں زمانے آنے والے
کوئی اک صاحبِ ادراکِ کامل چاہئے تھا
وہ نگاہِ ناز ہے مہرباں، رہے احتیاط
اے وفورِ شوق چھلک نہ جائے ایاغِ دل
ہو نہ جائے مری سماعت گم
تیری آواز کی تلاش میں ہے
وہ جو ہے خون میں رواں کب سے
درد ہے آہ کی تلاش میں ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks