جھلملانے لگے ہیں پھر جگنو
تیرگی تلملا رہی ہو گی
بھیج ہی دوں چراغ اشکوں کے
رات بستی پہ چھا رہی ہو گی
شکوہ ہے کوئی تو اپنی ذات سے ہے
تدبیریں اپنی تقدیریں بھی اپنی
ہاتھی کی چنگھاڑ سنائی کیسے دے
پیرِ حرم سکرات اٹھائے پھرتا ہے
اب کی بار وہ ہار سے یوں دو چار ہوا
سر پر دونوں ہاتھ اٹھائے پھرتا ہے
چاند ستارے اک مدت سے ماند ہوئے
’جگنو سر پر رات اٹھائے پھرتا ہے‘
لے کے پلکوں سے ستارے ٹانکے
قریۂ جاں کو اجالا میں نے
چلے تو پیشِ نظر تھی یقین کی جنت
سوادِ رہ نے کوئے بے اماں میں ڈال دیا
تیری یادوں کا اک ہجوم بھی ہے
آج کی رات میں نہیں تنہا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks