کس قدر جلدی میں تھے اہلِ جنوں
راستہ پوچھا نہ تھا اور چل دئے
آدمی کو وقار مل جائے
گر جبیں کو غبار مل جائے
آدمیت کا حسن ہے وہ شخص
جس کو ان کا شعار مل جائے
اک ذرا سوچئے تو، ہو گا کیا
گر جنوں کو قرار مل جائے
رنج ہوتا ہے بچھڑنے پر ضرور
پھر ملیں تو اس میں راحت اور ہے
کتنے تارے بنائے آنکھوں نے
آخرِ کار کٹ ہی رات گئی
بن گئی خامشی بھی افسانہ
تیرے گھر تک ہماری بات گئی
وہ جو آسی پہ تھی کبھی ان کی
وہ نظر دے کے دل کو مات گئی
ریگ زاروں میں بیٹھ کر ہم لوگ
آرزوئے بہار کرتے ہیں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks