ہم کو اپنی انا نے روک رکھا
ورنہ بِکتے ہیں مفت ہم جیسے
پھر کبھی ذکرِ یار کر لینا
شکوۂ روزگار کر لینا
ہائے کتنے فریب دیتا ہے
عادتاً اعتبار کر لینا
مجھے جتنے ملے غم دوستوں کے
وہ میں نے اپنے لفظوں میں سجائے
ہم اتنی دور جا پہنچے ہیں یارو
کہ رستہ بھی نہ ہم کو ڈھونڈ پائے
مرے محلے میں میرے بھائی جھگڑ رہے ہیں
اُدھر کوئی اپنے ترکشوں کو سنوارتا ہے
نہ وہ مکیں رہے ہیں نہ ہی وہ مکاں رہے
میرا جنوں رہے بھی اگر تو کہاں رہے
کتنی قیامتیں ہیں اشارے کی منتظر
دو چار دن بہت ہے جو باقی جہاں رہے
اپنے پیاروں کو یاد کرتا ہے
آدمی ہو اگر کہیں تنہا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks