اپنے دشمن ہزار نکلے ہیں
ہاں مگر، با وقار نکلے ہیں
گھر کا رستہ نہ مل سکا ہم کو
گھر سے جو ایک بار نکلے ہیں
راتیں تو اکثر آنکھوں میں کٹتی ہیں
ان دیکھے سپنے کس سے منسوب کروں
کرچی کرچی ہونے کا دکھ اپنی جگہ
پتھر جو برسے، کس سے منسوب کروں
میری زباں سے پھوٹے ہیں، سو میرے ہیں
زہریلے کانٹے کس سے منسوب کروں
یقین و امید و بیم و خوف و گماں نے مل کے
جواب جیسا سوال چہروں پہ لکھ دیا ہے
بے قراریِ جاں، جو تو نہ رہی
میں وہ گل ہوں کہ جس میں بو نہ رہی
تو نہ ملتا، نہ تھی کچھ ایسی بات
دکھ تو یہ ہے کہ جستجو نہ رہی
وائے بے سمت قافلوں کا سفر
رہگزر کی بھی آبرو نہ رہی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks