جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے
اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمہ خواب کی رات بھر یا اخی
وہ حبس ہے کہ دعا کر رہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے
ہم کو آتا ہے پیار کر لینا
آزمائش بھی یار کر لینا
ہائے کتنے فریب دیتا ہے
عادتاً اعتبار کر لینا
اک ذرا دوستوں کو جانے دو
زخم دل کے شمار کر لینا
کتنا مہنگا پڑا ہے آسی جی
عقل پر انحصار کر لینا
ہوتی رہیں حدود میں غیروں کی بارشیں
ہم حسرتوں سے دیکھتے ابرِ رواں رہے
اک تمنا بڑے دنوں سے ہے
لیلئ کوئے یار مل جائے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks