تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی
حلقۂ بے طلباں رنجِ گراں باری کیا
اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے کوچ کی تیاری کیا
ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو تری چارہ گری کیا مری بیماری کیا
تجھ سے کم پر کسی صورت نہیں راضی ہوتا
دلِ ناداں نے دکھا رکھی ہے ہشیاری کیا
سرپھری لہروں سے لڑتے ہوئے بازو تھک جائیں
پھر بھی آنکھوں میں رہے کوئی جزیرہ روشن
آنکھیں ایسی ہوں کہ جل جائیں سیاہی کے ورق
انگلیاں ایسی کہ تحریر کا سینہ روشن
ملالِ دولتِ بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں
ہم اپنی خاک سے پھر گنج زر نکالتے ہیں
میں اپنے نقدِ ہنر کی زکوٰۃ بانٹتا ہوں
مرے ہی سکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں
بڑھا کے میرے معانی پہ لفظ کا زنگار
مرے حریف مرے آئنے اجالتے ہیں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks