کیوں رشک ہے کہ بول رہے ہیں ہمارے زخم
تو بھی زبانِ سادہ و آساں میں بات کر
پیشِ حبیب طولِ سخن اور بات ہے
اک روز جا کے بزمِ رقیباں میں بات کر
راستوں پر تو ابھی برگِ خزاں اڑتے ہیں
خیر۔۔ اطراف میں خوشبوئے بہاراں بھی تو ہے
ہوا کی زد پہ ہمارا سفر ہے کتنی دیر
چراغ ہم کسی شامِ زوال ہی کے تو ہیں
یا برگ ریزِ ہوٗ میں نہ ہو ہم سے ہم کلام
یا لہجۂ ہوائے بہاراں میں بات کر
کچھ نظر آتی نہیں شہر کی صورت ہم کو
ہر طرف گردِ رہِ شاہ سواراں بھی تو ہے
یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں
ختن میں رہ کے بھی چشمِ غزل ہی کے تو ہیں
جسارتِ سخنِ شاعراں سے ڈرنا کیا
غریب مشغلۂ قیل و قال ہی کے تو ہیں
یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں
ختن میں رہ کے بھی چشمِ غزل ہی کے تو ہیں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks