یہ داغ کی تو خاک نہیں کوئے یار میں
اک نشہ وصال ہے آغوش نقش پا
سن سن کے ترے عشق میں اغیار کے طعنے
میرا ہی کلیجا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
پھٹتا ہے جگر دیکھ کے قاصد کی مصیبت
پوچھوں تو یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
تم کو یہی شایاں ہے کہ تم دیتے ہو دشنام
مجھ کو یہی زیبا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ہم نے ان کے سامنے اول تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجا رکھ دیا دل رکھ دیا سر رکھ دیا
دیکھئے اب ٹھوکریں کھاتی ہے کس کس کی نگاہ
روزن دیوار میں ظالم نے پتھر رکھ دیا
داغ کی شامت جو آئی اضطراب شوق میں
حال دلکمبخت نے سب ان کے منہ پر رکھ دیا
ہر چند ترے ظلم کی کچھ حد نہیںظالم
پر ہم نے کسی شخص کو نالاں نہیں رکھا
کیا ہے وعدہ فردا انہوں نے دیکھئے کیا ہو
یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks