بساطِ عجز میں تھا ایک دل، یک قطرہ خوں وہ بھی

سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن، سر نگوں ، وہ بھی
نہ کرتا کاش ! نالہ، مجھ کو کیا معلوم تھا، ہمدم
کہ ہو گا باعثِ افزایش دردِ دروں ، وہ بھی
خیالِ مرگ کب تسکین دلِ آزردہ کو بخشے ؟
مرے دامِ تمنا میں ہے ، اک صیدِ زبوں ، وہ بھی



Similar Threads: