مرتے ہیں تیرے پیار سے ہم اور زیادہ
تو لطف میں کرتا ہے ستم اور زیادہ
دیں کیوں کہ نہ وہ داغِ الم اور زیادہ
قیمت میں بڑھے دل کے درم اور زیادہ
کیا ہووے گا دوچار قدح سے مجھے ساقی
میں لوں گا تیرے سر کی قسم اور زیادہ
وہ دل کو چرا کر جو لگے آنکھ چرانے
یاروں کا گیا ان پہ بھرم اور زیادہ
کیوں میں نے کہا تجھ سا خدائی میں نہیں اور
مغرور ہوا اب وہ صنم اور زیادہ
لیتے ہیں ثمر شاخِ ثمر ور کو جھکا کر
جھکتے ہیں سخی وقتِ کرم اور زیادہ
جو کنجِ قناعت میں ہیں تقدیر پہ شاکر
ہے ذوق برابر انہیں کم اور زیادہ
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks