اور ہے اپنی کہانی اور ہے
داستاں اس کو سنانی اور ہے
میں تو سویا تھا ستارے اوڑھ کر
یہ ردائے آسمانی اور ہے
ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اس سمندر کا تو پانی اور ہے
پھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اس کی اک عادت پرانی اور ہے
اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے
اس کے گھر کی اک نشانی اور ہے
یوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اک عہدِ جوانی اور ہے
پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks