umda intekhabجھومتی ٹہنی پر اس کا ہمنوا ہو جاؤں میں
وہ اگر ہے پھول تو بادِ صبا ہو جاؤں میں
اس کے چہرے پر بکھیروں اپنی کرنیں رات بھر
اس کے آنگن میں کوئی جلتا دیا ہو جاؤں میں
ہرکسی کا ایک سا کردار تو ہوتا نہیں
بےوفا ہے وہ تو کیسے بےوفا ہو جاؤں میں
واد یوں میں جھومتی گاتی گھٹا ہو جائے وہ
لہلہاتے کھیت کی تازہ ہوا ہو جاؤں میں
انکسار اک میرا اخلاقی فریضہ ہے عدیم!!
اس کا مطلب یہ نہیں ہے گردِ پا ہو جاؤں میں
وہ پجارن بن کے کیا گذری پہاڑوں سے عدیم
ہر کوئی پتھر پکارا، دیوتا ہو جاؤں میں
thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks