زبانِ فطرت سے ان دنوں میں نئے نئے راز سن رہا ہوں
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے خود اپنی آواز سن رہا ہوں
ہر اہلِ دل کی زباں پہ یکساں فسانۂ زندگی نہیںہے
کسی سے انجام سُن رہا ہوں میں ، کسی سے آغاز سن رہا ہوں
مجھے تو کوئی ملا نہ ایسا جو مرنے والوں کو زندہ کر دے
میں آج بھی بزمِ زاہداں میں حدیثِ اعجاز سن رہا ہوں
خبر نہیں امن کے اندھیرے میں کون خنجر چلا رہا ہے
کراہتی ، ڈوبتی ، سسکتی دلوں کی آواز سُن رہا ہوں
سُنا ہے اک لشکر عنادل مٹانے آیا ہے رسمِِ زنداں
قفس کے نزدیک کچھ دنوں سے میں شور پرواز سُن رہا ہوں
ملے گا نغمہ کوئی تو ایسا کہ ہو گی جس پر حیات رقصاں
شکیل میں دل کی انجمن میں صدائے ہر ساز سُن رہا ہوں
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks