دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے
اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے
بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا ہے
میں کِھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے، اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Reply With Quote
Bookmarks