جانا کہ شغل رکھتے ہو تیر و کماں سے تم

پر مل چلا کرو بھی کسو خستہ جاں سے تم

ہم اپنی چاک جیب کو سی رہتے یا نہیں
پھاٹے میں پاؤں دینے کو آئے کہاں سے تم

اب دیکھتے ہیں خوب تو وہ بات ہی نہیں
کیا کیا وگرنہ کہتے تھے اپنی زباں سے تم

جاؤ نہ دل سے منظرِ تن میں ہے جا یہی
پچھتاؤ گے اُٹھو گے اگر اس مکاں سے تم

قصّہ مرا سنو گے تو جاتی رہے گی نیند
آرامِ چشم مت رکھو اس داستاں سے تم

کھل جائیں گی پھر آنکھیں جو مر جائے گا کوئی
آتے نہیں ہو باز مرے امتحاں سے تم

رہتے نہیں ہو بِن گئے میرؔ اُس گلی میں رات
کچھ راہ بھی نکالو سگ و پاسباں سے تم






Similar Threads: