کب سے متحمل ہے جفاؤں کا دلِ راز
زنہار وفا ہو نہ سکی یار سے اب تک
وعدہ بھی قیامت کا بھلا کوئی ہے وعدہ
پر دل نہیں خالی غمِ دیدار سے اب تک
مدت ہوئی گھُٹ گھُٹ کے ہمیں شہر میں مرتے
واقف نہ ہوا کوئی اس اسرار سے اب تک
برسوں ہوئے دل سوختہ بلبل کو موئے لیک
اک درد سا اُٹھتا ہے چمن زار سے اب تک
کیا جانیے ہوتے ہیں سخن لطف کے کیسے
پوچھا نہیں اُن نے تو ہمیں پیار سے اب تک
اب باغ میں اغلب ہے کہ سرزد نہ ہوا ہو
یوں نالہ کسو مرغِ گرفتار سے اب تک
Similar Threads:
Bookmarks