رہے خیال تنک ہم بھی رُو سیاہوں کا
لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا
نہیں ستارے یہ سوراخ پڑ گئے ہیں تمام
فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا
گلی میں اُس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا
لباسِ فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا
تمام زلف کے کوچے ہیں مارِ پیچ اُس کی
تجھی کو آوے دِلا! چلنا ایسی راہوں کا
کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمانِ حال
کہ کوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا
حساب کا ہے کا روزِ شمار میں مجھ سے
شمار ہی نہیں ہے کچھ مرے گناہوں کا
تری جو آنکھیں ہیں تلوار کے تلے بھی اُدھر
فریب خوردہ ہے تُو میرؔ کن نگاہوں کا
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote


Bookmarks