(مصطفےٰ زیدی کی موت پر)
اے مرے یار کی قاتل تجھے دیکھوں تو کہوں
کس طرح دستِ حنائی سے جھلکتا ہے لہو
کس طرح زہر عطا کرتے ہیں بلّور سے ہاتھ
کس طرح روح کو ڈستی ہے بدن کی خوشبو
مونا لیزاؤں سے معصوم و دل آرا چہرے
قلو پطراؤں سے جسموں پہ سجا رکھے ہیں
جاں گسل زہر نگینوں میں چھپا رکھے ہیں
جس کو چاہا اسے مرنے کا جنوں بخش دیا
بوسۂ مرگ عطا کر کے سکوں بخش دیا
یوں تو عشّاق کی منزل ہے یہی دشتِ فنا
"قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا"
٭٭٭
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks