کس سے ڈرتے ہو کہ سب لوگ تمہاری ہی طرح
ایک سے ہیں، وہی آنکھیں وہی چہرے وہی دل
کس پہ شک کرتے ہو، جتنے بھی مسافر ہیں یہاں
ایک ہی سب کا قبیلہ، وہی پیکر وہی گِل
ہم تو وہ تھے کہ محبت تھا وطیرہ جن کا
پیار سے ملتا تو دشمن کے بھی ہو جاتے تھے
اس توقع پہ کہ شاید کوئی مہماں آ جائے
گھر کے دروازے کھُلے چھوڑ کے سو جاتے تھے
ہم تو آئے تھے کہ دیکھیں گے تمہارے قریے
وہ در و بام کہ تاریخ کے صورت گر ہیں
وہ ارینے، وہ مساجد، وہ کلیسا، وہ محل
اور وہ لوگ جو ہر نقش سے افضل تر ہیں
رُوم کے بُت ہوں کہ ہو پیرس کی مونا لیزا
کیٹس کی قبر ہو یا تربتِ فردوسیؔ ہے
قرطبہ ہو کہ اجنتا کہ موہنجو داڑو
دیدۂ شوق نہ محرومِ نظر بوسی ہو
کس نے دنیا کو بھی دولت کی طرح بانٹا ہے
کس نے تقسیم کئے ہیں یہ اثاثے سارے
کس نے دیوار تفاوت کی اٹھائی لوگو
کیوں سمندر کے کنارے پہ ہیں پیاسے سارے
خیر تم شوق سے دیکھو مرا سب رختِ سفر
میں تو پاگل ہوں، مری بات پہ مت کان دھرو
یہ کتابیں ہیں، یہ تحفے ہیں، یہ کپڑے میرے
مہر کو ثبت کرو اور مجھے راہداری دو
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks