جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے
اے دل قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے
ذرّے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں
ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے
پھر دیکھنا اُس کے لبِ لعلیں کی ادائیں
یہ آتشِ خاموش ذرا اور دہک لے
گونگا ہے تو لب بستوں سے آدابِ سخن سیکھ
اندھا ہے تو ہم ظلم رسیدوں سے چمک لے
ناصرؔ سے کہے کون کہ اللہ کے بندے
باقی ہے ابھی رات ذرا آنکھ جھپک لے
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks