نِت نئ سوچ میں لگے رہنا
ہمیں ہر حال میں غزل کہنا
صحنِ مکتب میں ہم سِنوں کے ساتھ
سنگ ریزوں کو ڈھونڈتے رہنا
گھر کے آنگن میں آدھی آدھی رات
مِل کے باہم کہانیاں کہنا
دن چڑھے چھاؤں میں ببولوں کی
رمِ آہو کو دیکھتے رہنا
ابر پاروں کو، سبزہ زاروں کو
دیکھتے رہنا، سوچتے رہنا
شہر والوں سے چھپ کے پچھلی رات
چاند میں بیٹھ کر غزل کہنا
ریت کے پھول آگ کے تارے
یہ ہے فصلِ مراد کا گہنا
سوچتا ہوں کہ سنگِ منزل نے
چاندنی کا لباس کیوں پہنا
کیا خبر کب کوئ کرن پھوٹے
جاگنے والو جاگتے رہنا
Similar Threads:
Bookmarks