شبنم آلود پلک یاد آئ
گلِ عارض کی جھلک یاد آئ
پھر سلگنے لگے یادوں کے کھنڈر
پھر کوئ تاکِ صنک یاد آئ
کبھی زلفوں کی گھٹا نے گھیرا
کبھی آنکھوں کی چمک یاد آئ
پھر کسی دھیان نے ڈیرے ڈالے
کوئ آوارہ مہک یاد آئ
پھر کوئ نغمہ گلو گیر ہوا
کوئ بت نام کسک یاد آئ
ذرّے پھر مائلِ رَم ہیں ناصر
پھر اُنھیں سیرِ فلک یاد آئ
Similar Threads:
Bookmarks