ہر ادا آبِ رواں کی لہر ہے


جسم ہے یا چاندنی کا شہر ہے

پھر کسی ڈوبے ہوۓ دن کا خیال
پھر وہی عبرت سراۓ دہر ہے

اڑ گۓ شاخوں سے یہ کہہ کر طیور
اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے




Similar Threads: