کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہےجب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہےیارب کسی کے رازِ محبت کی خیر ہودستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلےحیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کراے عشق ! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے
اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاںہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
اس عشق کی تلافیِ ما بعد دیکھنارونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks