مجھ کو تو گِر کے مرنا ہے
باقی کو کیا کرنا ہے
شہر ہے چہروں کی تمثیلسب کا رنگ اترنا ہےوقت ہے وہ ناٹک جس میںسب کو ڈرا کر ڈرنا ہےمیرے نقشِ ثانی کومجھ میں ہی سے اُبھرنا ہےکیسی تلافی کیا تدبیرکرنا ہے اور بھرنا ہےجو نہیں گزرا ہے اب تکوہ لمحہ تو گزرنا ہےاپنے گماں کا رنگ تھا میںاب یہ رنگ بکھرنا ہےہم دو پائے ہیں سو ہمیںمیز پہ جا کر چرنا ہےچاہے ہم کچھ بھی کر لیںہم ایسوں کو سُدھرنا ہےہم تم ہیں اک لمحہ کےپھر بھی وعدہ کرنا ہے
Similar Threads:
Bookmarks