Originally Posted by intelligent086 وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا براہِ راست مُلاقات کو زمانہ ہُوا وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا یہ نوکری کا بُلاوا تو اِک بہانہ ہوا خُدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں یہ آنکھیں جن کو کبھی دُکھ کا حوصلہ نہ ہُوا کنارِ صحن چمن سبز بیل کے نیچے وہ روز صبح کا مِلنا تو اَب فسانہ ہُوا میں سوچتی ہوں کہ مُجھ میں کمی تھی کِس شے کی کہ سب کا ہوکے رہا وہ، بس اِک مرا نہ ہُوا کِسے بُلاتی ہیں آنگن کی چمپئی شامیں کہ وہ اَب اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہُوا دھنک کے رنگ میں ساری تو رنگ لی میں نے اور اب یہ دُکھ ، کہ پہن کر کِسے دِکھانا ہُوا میں اپنے کانوں میں بیلے کے پھُول کیوں پہنوں زبانِ رنگ سے کِس کو مُجھے بُلانا ہُوا *** Nice Sharing ...... Thanks
Originally Posted by Admin Thanks for sharing Keep it up .. Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ...... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks