میں بھی لکِھوں گا ریت پہ اب اپنے نام کو
کہتے ہیں اُس سے بچ کے گزرتی ہیں آندھیاں
جس قبر پر چراغ نہ جلتا ہو شام کو

ساحل بھگو رہی تھی سخاوت فُرات کی
گھیرا ہُوا تھا آگ نے میرے خیام کو

بیدارئی ضمیرِ کفِ خاک حشر ہے
سورج اُتر رہا ہے زمیں کے سلام کو

تنقید کر کے میرے ہُنر کی اُڑان پر
تسلیم کر رہا تھا وہ میرے مقام کو

جو تیری منتظر تھیں وہ آنکھیں ہی بجھ گئیں
اب کیوں سجا رہا ہے چراغوں سے بام کو

رُوٹھی ہوُئی ہوائیں کہاں ہیں کہ دشت میں
محسن ترس گئے ہیں بگولے خرام کو

محسن نقوی

________________



گئے دنوں کی عزیز باتیں
نگار صبحیں،گلاب راتیں
بساطِ دل بھی عجیب شے ھے
ہزار جیتیں ،ہزار ماتیں
جدائیوں کی ھوائیں لمحوں کی
خشک مٹی اُڑا رہی ھیں

گئی رتوں کا ملال کب تک ؟
چلو کہ شاخیں تو ٹوٹتی ھیں
چلو کہ قبروں پہ خون رونے سے
اپنی آنکھیں ہی پھوٹتی ھیں