تحریر نعیم جعفری

مرض وحادثات کی سور ت میں فرسٹ ایڈ ، یعنی ابتدائی طبی امداد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اس سے پیچید گیوں کے امکانات بلکہ ناگہانی موت سے بھی بچا جا سکتاہے ۔ اس کے بہت سے پرانے انداز وقت کے ساتھ تجربات اور تحقیق کی روشنی میں اب نہ صرف بے کارہو گئے بلکہ مضر ثابت ہو رہے ہیں ۔
اب اس لڑکی کے واقعے پر ہی غور کیجئے جو اپنے ہم جماعت دوست کے ساتھ موٹر سائکل پر جارہی تھی ۔ اس نے اترتے وقت بڑی پھرتی کا مظاہرہ کیا اور اچھل کر موٹر سائکل سے اتر پڑی لیکن اس دوران موٹر سائکل کے تام اگزاسٹ پائپ پر اسکی ٹانگ جا پڑی ۔جس سے اس کی جین ہی نہیں جلی بلکہ ٹانگ بھی جھلس گئی ۔ اس کے دوست کی والدہ نے اس کے زخم پر جلدی سے مکھن چپڑ دیا اور یہ عمل دہراتے رہنے کہ تاکید کی لیکن باقاعدہ گی سے مکھن لگاتے رہنے کے باوجود جلی ہوئی جلد اور زخم کی سرخی بڑھتی چلی گئی زخم کسی طرح بھرتا نہ تھا ہسپتال جانے کا خیال اس وقت آیا جب تیز بخار نے آلیا ۔ ہسپتال والوں کھانے کیلئے ضدحیوی(اینٹی بایوٹکس)دوائیں دیں جن کے ایک ماہ تک استعمال باوجود زخم ٹھیک نہیں ہو ا تو زخم بند کرنے کے لئے سر جری کی مدد لینی پڑی ۔
غلطی لڑکی کی تھی ، اسے آنکھ بند کر کے بوڑھوں کے ابتدائی علاجی طریقے پر عمل نہیں کرنا چاہئے تھا۔ یہ طریقے اب بے کار ہو گئے ہیں یا کم از کم جدید تجربے اور تحقیق کی روشنی میں اب انہیں اختیار کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے ۔
آج بھی فرسٹ ایڈ بکس کا جائزہ لیجئے تو اس میں زخم پر بندھنے والی پٹیاں ، کچھ گاز (Gauze)درد دور کرنے والی گولیاں ، جراثیم کش مرہم کی ٹیوب ، ایوڈین کی شیشی یا ہائیڈروجن پیروکسائڈ کی بوتل موجود ملے گی۔ یہ چیزیں برسوں سے زیر استعمال ہو رہی ہیں کیوں کہ انہیں تجربات بھی درست اورمفید ثابت کرتے آرہے تھے۔لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
جانز ہاپکنز اسکول آف میڈیسن میں ہنگامی علاج کے پروفیسر مائیکل وانروئین کے مطابق فرست ایڈ کی یہ اشیا بہت عام ہیں ۔نہ صر ف یہ بلکہ ایسی بہت سی اشیا دنیا بھر میں استعال ہوتی ہیں ۔ لیکن یہ درست موثر اور مفید نہیں ہوتیں آج بھی کھلے زخم پر ہائیڈروجن پیرو کسائڈ لگا یا جاتا ہے لیکن اب بر سوں کے تجربات اور مشاہدات وتحقیق نے ہنگامی حالات میں ان کا استعمال غلط ثابت کیا ہے اب اس بات کی ضرورت ہے کہ فرسٹ ایڈ کے بکس کی اشیا اور علاجی انداز تبدیل کر دیئے جائیں ۔
زخم اور چھلن:
ایسی صورت میں فرسٹ ایڈ بکس میں استعمال کے لئے ہائیڈروجن پیرو کسائڈ کے علاوہ ،آیو ڈین اسپرٹ اور کرکیور وکریم (سرخ رنگ کی دوا )موجود ہوتی ہے۔ اب یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر زخم کھلا نہ ہو اور صر ف بند مار ہو تو اس کے لئے آیوڈین آج بھی بہترین دوا ہے۔ اس میں جراثیم ہلاک کرنے کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لئے آپریشن سے پہلے آپریشن کی جگہ اس کو ضرور لگا یا جاتاہے تاکہ جلد جراثیم سے پاک صاف ہو جائے لیکن جلد کے ماہرین کے مطابق کھلے زخم پر یعنی جس سے خون رس رہا ہو آیو ڈین کبھی نہیں لگانا چاہئے اسی طرح ہائیڈروجن پیروکسائڈ اور اسپرٹ کا زخم پر لگانا بھی غلط ہے ان کے زہریلے کیمیکل اثرات سے جلد کے خلیا ت کو سخت نقصان پہنچتاہے زخم صاف ہوتے تو ہیں لیکن صحت مند خلیات ان دوائوں کی زد میں آکر ہلا ک بھی ہو جاتے ہیں زخم پر ان کے ملنے سے ہونے والی جلن اور درد اصل صحت مند بافتوں (ٹشوز) کو کھر چنے کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔
پروفیسر وان روئین رائے میں آپ کا مقصد اچھے ریشوں یا بافتوں کا تحفظ ہو تاہے جب کہ آیو ڈین یہ کام نہیں کرتا ۔ یہ درست ہے کہ اسی طرح مرکیوروکروم سے بھی بیکٹیر یا ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن یہ یا د رہنا چاہئے کہ اس میں پارہ شامل ہے جو زہر یلا ہوتاہے لیکن اس کے باوجود اسے محفوظ سمجھا جاتا ہے اب کوئی بھی سمجھ دار معالج اسے اس مقصد کے لئے استعمال نہیں کرتا۔
بہتر یہ ہے کہ:
زخم کو گردوغبار، کٹی پھٹی جلد کے ریشوں ، بیکٹیر یا سے صاف کرنا بہت آسان ہے۔ یہ کام صحت مند ریشوں کو نقسان پہنچائے بغیر کیا جا سکتاہے بہتر یہ ہے کہ زخم صاف پانی کی دھار سے دھو ڈالئے زخم صاف ہو جائے گا اب اسے صاف روئی یا کپڑے سے خشک کر کے اس پر چپکنے والی پٹی لگا دیجئے یا پھر کوئی منا سب مانع بیکٹیریا مرہم لگا دیجئے، جس میں بیسی ٹراسین(Bacitracin)یانیو مائی سین (Neomucin)شامل ہو اس طرح زخمی حصہ چکنا رہنے کی وجہ سے چپکے گا بھی نہیں ۔
جلنے کے زخم مکھن ، سویا ساس ، توتھ پیسٹ :
ہاتھ چولھے سے جلے یا استری سے۔ پرانا طریقہ یہی ہی کہ اس پر مکھن ، سویا ساس یا توتھ پیسٹ لگا دیا جائے ۔ اس طرح جلن اور کھولن کم ہو جاتی ہے۔ لیکن پروفیسر ان روئین کی رائے میں یہ طریقے غلط ہیں کیوں کہ انکی وجہ سے زخم میں چھوت (انفیکشن)ہو کر بیکٹیر یا کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع مل جاتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ :
جلے ہوئے حصے پر ٹھنڈا پانی دھارا جائے تاکہ اور حرارت کم ہوکر نقصان پہنچنے کا سلسلہ رک جائے ۔ پانی سے متاثر ہ حصہ صاف ہو جائے گاجس سے انفیکشن کا خطرہ بھی دور ہو گا اور مریض بہتر بھی محسوس کرے گا پانی دھار نے کے بعد جلے ہوئے حصے پر صاف ستھری گاز (Gauze)اور نہ چپکنے والی پٹی باندھ دیجائے تا کہ وہ صاف اور خشک رہے۔ آبلے یا چھالے بن جائیں تو انہیں توڑنا نہیں چاہئے کیوں ان میں جمع پانی اور جراثیم سے پاک ہوتاہے، اس طرح جلی ہوئی جگہ پر یہ محفوظ قدر تی پٹی ثابت ہو تے ہیں ۔
زہر خورانی اپیکاک کا شربت:
عرصہ ٔ دراز سے زہر خورانی کے فورا بعد اپیکا ک کا شربت استعمال کر ایا جا تاہے ، جس کے پینے سے الٹیا ں ہو کر زہر خارج ہونیکا یقین کر لیا جاتا ہے ۔اپیکاک برازیل کے ایک پودے سے حاصل کیا جاتاہے اس کی افادیت کو غلط قرار دیتے ہوئے امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس اور امریکن اکیڈمی آف کلینکل ٹیگزی کالوجی کا مشورہ یہ ہے کہ اسے گھر میں رکھناہی نہیں چاہئے کیونکہ تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے استعمال سے ہسپتال کے چکر ختم ہو تے ہیں اور نہ زندگی ہی بچتی ہے برائوں یونیورسٹی کے اسسٹیٹ پروفیسر چارلس پتا دینی کے مطابق الٹیو ں کے باوجودایپی کاک کا 40سے 60فیصد زہر پیٹ میں ہی رہ جاتاہے ۔ اس کے علاوہ اس کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ الٹیاں جسم میں پانی کی کمی کا سبب بن جاتی ہیں اس طرح معا لجین کے لئے الٹیوں کا علا ج کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اسی طرح اگر صابن سازی میں استعمال ہونیوالے سوڈا کاستک والا پانی غلطی سے پی لیا جائے تو یہ پانی غذائی نالی کو جلا دیتا ہے اگر اسے قے کے ذریعے کیا جائے تو جلانے کا یہ عمل دوبارہ واقع ہو تاہے۔
بہتر یہ ہے کہ :
فوری طورپر زہر خورانی کے مر کز سے رابطہ کر کے ماہرانہ مشورہ حاصل کیاجائے اور اسی کے مطابق ہنگامی علا ج کی تدبیر کی جائے ۔ وہ اگر ہسپتال میں داخلے کا مشورہ دیں تو اس پر عمل کرنے میں دیری نہ کی جائے ۔ یہاں مریض کو پسا ہوا لکڑی کا کوئلہ ، میٹھا سوڈا ملا کر پلا یا جائے گا۔ نہایت باریک پساہوا کوئلے کا یہ سفوف سیاہی چوس کاغذی کی طرح کا سٹک سوڈے کو چوس لے گا اور اسے خون میں شامل ہونے نہیں دے گا اور بہ طور فضلہ خارج ہو جائے گا۔
اس سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ سفوف جو ایکٹی ویٹیڈ چار کول (Activated Charcoal)کہلاتا ہے، ایک گھنٹے کے اندر اندر متاثرہ شخص کو دیا جائے۔ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کو دوائوں کی دکان سے بھی مل جائے۔لیکن ماہر کی ہدایت کے بغیر اسکا استعمال مناسب نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس کی مقدار متاثرہ شخص کے وزن لہاظ سے طے کیجاتی ہے ، اسے پانی میں ملا کر پلانا ہو تا ہے ۔ کیپسول میں بند سفوف کے 50کیپسول کھلانے ہوں گے ، جس کے پیٹ میں جا کر گھلنے میں وقت لگے گا۔ مناسب یہی ہے کہ ہنگامی علاجی مرکز سے رابطہ کیا جائے۔
خون کا اخراج خون روک آلے کا استعمال :
کبھی بوائے اسکائوٹس کو ہنگامی حالات میں خون روکنے کے لئے خون روک آلہ (Tourniquets)یا رسی کو بل دے کر خون کا بہائو روکنے کے تربیت دی جاتی تھی، لیکن اب مطالعات نے ثابت کیا ہے کہ اس کے فائدے سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ پروفیسر پتادینی کے مطابق انتہائی مجبوری کی حالت میں ہی یہ طریقہ استعمال کرنا چاہئے اس تد بیر پر عمل کرنے کی وجہ سے عضو میں خون کی روانی اس حد تک کم ہو جاتی ہے کہ اس سے وہ عضو نا کارہ ہو سکتا ہے۔ اسے استعمال کرتے وقت یہ خیا ل رکھنا بہت ضروری ہوتاہے ۔
بہتر یہ ہے کہ:
اس کے بجائے پٹیاں استعمال کی جائیں ، یعنی جس جگہ سے خون بہ رہا ہو ، وہاں صاف ستھری پٹیاں اچھی طرح رکھ کر پٹی کو اچھی طرح دبا کر رکھا جائے جب یہ پٹی خون آلو د ہو تو دوسری پٹی اس پر رکھ کر وہ جگہ دبائی جائے ۔ یہ سلسلہ خون بند ہونے تک جاری رکھا جائے ۔ اس طرح خون کا بہائو بھی کم ہو گا اور زخم پر حفاظتی پرت بننے کا قدرتی عمل بھی ہو گااور عضو میں خون کی روانی جاری رہے گی ۔
یہ عمل کار گر نہ ہو توپھر ہاتھ یا پیرمیں خون رواں رکھنے والی شریان پر دبائو ڈال کر خون کا بہائو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اس عمل کی تربیت فرسٹ ایڈ کے کسی بھی مرکز سے حاصل کر نی چاہئے ۔ بہتر ہے کہ قریبی مرکز صلیب احمر یا ہلا ل احمر سے فرسٹ ایڈ کی مکمل تر بیت حاصل کر لی جائے۔(یو این این)



Similar Threads: