اس نے وفا کی اور ہی رسمیں بنائی ہیں
مجھ سے بڑھا کے غیر سے نظریں ملائی ہیں



سب دیکھتے ہیں اس کے ہی ایوان کی طرف
جس نے مری مکان کی اینٹیں چرائی ہیں



میں جانتی ہوں اس کی عبادت کے مرحلے
میرے ہی ساتھ اس نے تو عیدیں منائی ہیں



وہ صبح میرے گھر میں تھا جو شام کھو گیا
بستر کی اب تلک نہیں شکنیں ہٹائی ہیں



اشکوں کے بعد اپنا لہو دے کے کاٹ لیں
سمجھی تھی میں کہ درد کی فصلیں پرائی ہیں
٭٭٭




Similar Threads: