کوئی چہرہ ، شناس سا گزرا
وہ یہیں ہے قیاس سا گزرا
اور اک رات کاٹ لی میں نے
اور اک دن اداس سا گزرا
درد آنکھوں سے پھوٹ کر نکلا
پل کوئی نا سپاس سا گزرا
جانے کس سچ کا سامنا کل ہو
شب کے دل میں ہراس سا گزرا
پھر سر آئینہ اداسی کا
دیدۂ التماس سا گزرا
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks