گہرے نیلم پانی میں
پھُول بدن لہریں لیتے تھے
ہَوا کے شبنم ہاتھ انھیں چھُو جاتے تو
پور پور میں خنکی تیرنے لگتی تھی
شوخ سی کوئی موج شرارت کرتی تو
نازک جسموں ،نازک احساسات کے مالک لوگ
شاخِ گلاب کی صُورت کانپ اُٹھتے تھے!
اُوپر وسط اپریل کا سُورج
انگارے برساتا تھا
ایسی تمازت!
آنکھیں پگھلی جاتی تھی!
لیکن دِل کا پھُول کھِلا تھا
جسم کے اندر رات کی رانی مہک رہی تھی
رُوح محبت کی بارش میں بھیگ رہی تھی
گیلی ریت اگرچہ دھُوپ کی حدت پاکر
جسموں کو جھلسانے لگی تھی
پھر بھی چہروں پہ لکھا تھا
ریت کے ہر ذرے کی چُبھن میں
فصلِ بہار کے پہلے گُلابوں کی ٹھنڈک ہے
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks