سکونِ دل کے لئے ایک ہی دوا کی تھی
خدا سے بارہا تیری ہی التجا کی تھی
یہ پاؤں پھر تری دہلیز سے ہٹے ہی نہیں
مسافتوں کی ترے در پہ انتہا کی تھی
وہ جن گناہوں کی لذت ثواب جیسی تھی
ترے ہی نام سے ان سب کی ابتدا کی تھی
بتاؤں ترکِ مراسم کا کیا سبب کہ مری
محبتوں کی کہانی تو بس جفا کی تھی
ہوا تھا تیرا گماں خود پہ بارہا مجھ کو
مہک تیری مجسم بدن میں کیا کی تھی
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks