جہاں تمثیل تم میں ہو گیا ہے
یہ کیا ترسیل تم میں ہو گیا ہے
کھلا جو خواب میں کل شب گلستاں
وہی تبدیل تم میں ہو گیا ہے
سر آئینہ ہوتا تھا مرا عکس
کہیں تبدیل تم میں ہو گیا ہے
تسلسل سے سفر میرے لہو کا
ہزاروں میل تم میں ہو گیا ہے
ذرا اپنے بدن کو چھو کے دیکھو
کوئی تحلیل تم میں ہو گیا ہے
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks