میں جدید زمانے کی انسان ، فیشن کرنا اور وقت کے حساب سے چلنا ہی میرا مقصد ، پرانے لوگ ، پرانےخیالات سب میرے لئے ایک الجھن کا سامان رہے. ایسا نہیں تھا کہ میں نے اپنے بزرگوں سے کچھ سیکھنے میں اپنی تذلیل سمجھی ، بلکہ آج میں جو ہوں وہ اپنے والدین اور بزرگوں کی دی ہوئی تعلیم کا ہی نتیجہ ہوں ، مگر پھر بھی مجھے کافی معاملات میں اپنی جدید سوچ زیادہ سلجھی ہوئی اور نئے انداز سے مزین لگی .
میرے خیال میں پرانے لوگ ضرورت سے زیادہ جذباتی اور رشتوں سے بندھے رہنے، اپنی بنیادوں کو قائم رکھنے کے عادی ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے پرانے لوگ آگے کی طرف بڑھنے اور جدت لانے سے دور رہتے ہیں، اکثر اوکات تو بزرگ اپنے بچوں کو بھی ان ہی طریقوں پر گامزن رہنے کی تعلیم دیتے ہیں. پر کہاں میری سوچ اور کہاں ان لوگوں کی سوچ. اب تو زمانہ بہت آگے بڑھ چکا ہے ، کون کسی کے لئے اپنا وقت برباد کرتا ہے. آج کل تو انسان خود کو ہی سنبھال لے یہ ہی کافی ہے، کہاں اپنے ارد گرد کے لوگوں کی الجھنوں میں خود کو الجھائے . ارے یہ ہمارے ارد گرد جو پرانے لوگ ہیں ان کو کیا پتا کہ ہمیں بھی جینے کی آرزو ہے، ہمیں بھی آگے بڑھنا ہے. جدید وقت کے ساتھ جدت اپنانی ہے .یہ لوگ تو اپنے حصے کی زندگی جی چکے ہیں . ہمیں کھل کے جینے کیوں نہیں دیتے . بس یہ ہی خیالات مجھے وقت کے ساتھ ساتھ تیزی سے رواں دواں رکھے ہوئے تھے. میں کامیاب بھی ہو رہی تھی.
کیا ہوا اگر میرے والدین کو. میرے بزرگوں کو میری ضرورت ہے. بھئ میں نے انتظامات تو کر دیئے ہیں ان لوگوں کے لئے ، جدید دور ہے. ریموٹ کے ایک بٹن نے زندگی کو پر تعیش بنانے کے تمام سامان لا موجود کیے ہیں .زندگی آسان کر دی ہے. انکے دل لگانے کو ٹیوی ہے کمپوٹر ہے . ہمیں کہاں وقت ملتا ہے اب کہ تھوڑا وقت ان لوگوں کے ساتھ کہیں باہر نکل جایئں اور ان کی ضرورت کا سامان کر دیں . کاریں ہیں گھر میں کھڑی ہوئی . ابو بھی اچھی خاصی ڈرائیو کرتے ہیں . ضروری تو نہیں کے ہر وقت میرے ہی سہارے کی ضرورت ہو انکو . میری بھی تو اپنی لائف ہے. جب میں ان کو اپنے لئے ڈسٹرب نہیں کرتی . تو یہ لوگ بھی اپنے لئے خود آسانی پیدا کریں .
اب کیا مشکل ہے . اب تو زندگی بہت آسان ہو گئی ہے . کیا ابو بھی ہر وقت بینک بینک کہتے رہتے ہیں. پتا نہیں ابو کو کیا ہو گیا ہے. اچھے بھلے پڑھے لکھےانسان ہیں . ساری زندگی لا تعداد لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم بانٹی ہے. ایک پروفیسر ہیں . ان کا ذہن تو مجھ سے کہیں زیادہ تیز ہے. ماشاء الله حساب پڑھاتے رہے ہیں. پتا نہیں پھر کیوں ابو کمپوٹر آپریٹ کرنا نہیں سیکھتے . بینک کے سارے کام اب گھر بیٹھے ہو جاتے ہیں.
امی کو دیکھو مائکرو ویو اوون ہے . مگر پھر بھی سب کچھ جو پکانا ہے یا کھانا گرم کرنا ہے ان کو چولہے پر ہی کرنا ہے. پتا نہیں کیوں جدت نہیں اپناتی ہیں . پھر شام کو کہتی ہیں میں تھک گئی ہوں . ارے امی کام والیاں بھی ہیں . تھوڑی مدد لے لیا کریں پر کہاں امی کو تو عادت ہے خود کو الجھائے رکھنے کی. سب بدل جائے گا . پر میری امی پرانی سوچ نہیں بدلنے کی . نا جانے کیسی سوچ کی مالک ہیں . ہم بھی تو سیکھ رہے ہیں. آپ سے کم عمر ہیں. پھر آپ تو تجربہ کار ہیں. آپ کیوں نہیں سیکھ لیتی یہ سب .اف میں نہیں بدل سکتی بھئی ان کی سوچ . ابھی میں ان سب خیالات ہی میں مگن تھی کہ میرے کانوں میں پرانے زمانے کے ان گانوں کی آوازیں گونجنے لگیں .
چلے جانا نہیں نین ملا کے ہائے سیاں بے دردی
چاند پھر نکلا مگر تم نہ آئے .
چلو جی شروع ہو گیا ابو کا راگ دور . اف پتا نہیں ابو یہ گانے ہلکی آواز میں کیوں نہیں سنتے ہیں . محلے والے بھی کیا کہتے ہونگے کے پتا نہیں کون ہے جو اتنے سڑے ہوۓ گانے سنتا ہے .امی اب کو کہیں نا کہ ہلکی کر دیں ان کی آواز . میرا تو بھیجہ گھوم گیا ہے . اف کان پک گئے یہ گھسے پٹے گانے سن سن کر . پر ابو کا ٹیسٹ نہیں بدلا . اب تو محلے والوں کو بھی یہ گانے زبانی یاد ہونگے .امی ماسی بھی کیا کہتی ہوگی یہ کس قسم کے گانے سنتے ہیں .
وقت اس طرح ہی گزر رہا تھا. میری سوچ مزید آگے بڑھ رہی تھی. میں بہت کچھ سیکھ رہی تھی. اب تو میرے ذہن میں یہ خیال بھی پیدا ہونے لگا تھا کہ لوگ پتا نہیں ایک دوسرے کے محتاج کیوں بن کر جیتے ہیں . ارے خود مختاری بھی کوئی چیز ہوتی ہے. میں کیوں کسی سے مدد مانگوں . میں خود سب کر سکتی ہوں. کیوں ان رشتوں اور تعلقات کی محتاج رہوں. میں کسی کی محتاج نہیں ہوں . دنیا میری مٹھی میں ہے. میری تعلیم ، میری سوچ کسی سے کم نہیں ہے. پتا نہیں میرے والدین یہ سب کیوں نہیں سمجھتے ، وہ ہی رشتوں کا رونا لئے بیٹھے رہتے ہیں . ارے کوئی جب ہم سے رکھنا نہیں چاہتا تو لعنت بھیجیں ان پر . آگے بڑھیں . اب کون کسی کے لیے رکتا ہے.
آج میں گھر میں بلکل اکیلی تھی. ابو کے ڈر سے اونچی آواز میں گانے سنتے ذرا الجھن ہوتی تھی. سوچا خوب تیز آواز میں گانے کیوں نہ سنے جایئں . کوئی روکے ٹوکے گا نہیں . میں نے اونچی آواز میں گانے لگا لئے اور اپنے کام میں لگ گئی. پھر مجھے احساس ہوا کہ اگر کوئی گھر کی بیل دے یا دروازہ کھٹکھٹائے یا ٹیلیفون کی گھنٹی بجے تو مجھے پتا نہیں چلے گا . امی ابو ہوتے ہیں تو کم سے کم مجھے یہ ٹینشن نہیں ہوتی ہے . میں نے آواز ہلکی کرنے کی بجائے منہ بنا کے اپنا میوزک سسٹم ہی آف کر دیا . پتا نہیں کہاں رہ گئے ہیں امی ابو . عجیب بات تھی نا کہ کہاں میں خود مختاری کا سوچتی ہوں . اور آج بڑے مزے سے اونچی آواز میں گانے سن سکتی تھی پر احساس زمیداری نے مجھے خاموشی اور دبی آواز کی طرف رجوع ہونے پر مجبور کیا. آج مجھے احساس ہوا کہ والدین کا ساتھ انسان کے لئے کتنی بےفکری کا احساس لئے ہوئے ہوتا ہے. کہنے کو بات صرف میوزک کی تھی . پر میرے آنسو جاری ہو گئے اس سوچ سے کے خدا نہ خواستہ جب یہ آوازیں کعبہ سننے کو نہیں ملیںگی ، جب بڑوں کا خوف نہیں ہوگا ، یہ بے فکری کی زندگی نہیں ہوگی تو کیا ہوگا ، اس سوچ نے یکسر میری سوچ بدل دی. آج مجھے اپنے ابو کو گانے سنتے دیکھ کر رونا آ جاتا ہے ، کہ نا جانے یہ آوازیں کب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہیں، امی کی مسکراہٹ دیکھ کر دل پسیج جاتا ہے کہ نا جانے یہ انمول مسکراہٹ کب تک ساتھ ہے ، بات یہ چھوٹی سی تھی. پر اس بات نے مجھے یہ احساس دلایا کہ والدین کا ساتھ انسان کی زندگی میں کس قدر ضروری ہے .
تھوڑی دیر میں گھر میں چہل پہل ہو گئی. ابھی جو خاموشی اور بے رونقی تھی . وہ یک دم ہلچل میں بدل گئی. ابو اور امی گھر آ گئے تھے. آج اتوار بازار سے پتا نہیں کیا کیا خرید لائے تھے. مجھے پتا بھی نہیں چل اوراپنی تمام زندگی کھاتے پیتے . عیاشی کرتے گزار دی یہ کبھی سوچا ہی نہیں کہ. یہ تمام عیاشی کا سامان میرے والدین کا ہی پیدا کردہ ہے. ہماری پرورش کو ، ہمارے کھانے پینے کو ، پہننے اوڑھنے کو ، اور بے فکری کی زندگی کو ہمارے والدین انتھک محنت کرتے ہیں . اگر میری والدہ مجھے روز تازہ کھانا پکا کر اور تازی روٹی پکا کر نہ دیں تو میں تو شاید خود اتنی سست ہوں کہ دو دو دن کا کھانا مائکرو ویو میں گرم کر کے کھاتی جبکہ مجھ سے تو دوپہر کا کھانا رات کو نہیں کھایا جاتا.امی کے ہاتھ کی تازی روٹی نہ ملتی تو بازار سے نان خرید کر اکتا چکی ہوتی . میری والدہ اپنے ہاتھ سے تازہ کھانا پکا کر دیتی ہیں مجھے . اپنے ہاتھ کی گرم گرم روٹیاں اس وقت پکا کر دیتی ہیں. جب میں یونورسٹی سے تھکی ہاری آتی ہوں. اور اتنی ہمت بھی نہیں ہوتی کہ اپنا کپڑے ہی تبدیل کرسکوں . پر میری والدہ سارے دن کی تھکی ہاری چہرے پر بھر پور مسکراہٹ لئے میرا انتظار کر رہی ہوتی ہیں . میرے والد کی نظریں دروازے پر ہوتی ہیں جب تک میں گھر میں داخل نا ہو جاؤں .وہ اپنے آپ کو بے آرامی کی کیفیت میں مبتلا رکھتے ہیں . ذرا دیر ہو جائے تو مجھے فون کر کے میری خیریت لیتے ہیں . ایسی محبت مجھے اور کون دے گا . کوئی نہیں .
اگر زندگی کی اس چہل پہل کے ہوتے ہوۓ ہم کبھی یہ تصور کریں کہ . الله نہ کرے . پر زندگی میں کبھی ایسا وقت آیا کے میری آنکھوں کے سامنے سے یہ تمام منظر اوجھل ہو جائے ، یہ پرانے گھسے پٹے گانوں کی آوازیں رک جایئں . مجھے کسی کے آگے جواب دہ نہ ہونا پڑے . جینے کا مقصد اور بے فکری ختم ہو جائے . مجھ پر روک ٹوک ختم ہو ،مجھے پھر اپنی زندگی خود لے کر آگے چلنا پڑے، گو کے میں چل سکتی ہوں. کیوں کے مجھے میرے والدین نے ایسا بنا دیا ہے کہ میں کسی کی محتاج نہیں رہونگی کبھی بھی. یہ بھی تو انکا ہی احسان ہے مجھ پر . سوچو یہ سب کچھ میری زندگی سے ختم ہو جائے . پھر کیا رہ گیا.
ہائے اس سوچ سے میری تو ایک دم جان نکل گئی . میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے یہ سوچ کر کہ اگر . میرے امی ابو کی آوازیں کبھی میرے کانوں میں نہیں پڑیں گی . جب کوئی ایسے گھسے پٹے گانے نہیں سنے گا. تو کیسی خاموشی ہوگی . اس سوچ نے میرے دل کو موم کر دیا . میری آنکھوں میں اپنی والدہ کی مسکراہٹ . اور اپنے والد کی شفقت ایک تصویر کی طرح چلنے لگی .میرے والد کا میرے سر پر ہاتھ پھرنا اور میرا اس سوچ سے بے فکر ہو جانا کے ابو ہیں نا ، سب کر لیں گے . یہ سوچ مجھے نڈھال کر گئی کے اگر یہ سب نہ ہوا تو میرا کیا ہوگا.
پھر مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میرے پرانے والدین پرانے بزرگوں میں جو باتیں مجھے شدید نا پسند تھیں . وہ اصل میں نا پسندیدہ باتیں نہیں تھیں. بلکہ انکی محبت کے جذبے ہیں . ایسے جذبے جس سےآج کل کی نوجوان نسل محروم ہے . ہمارے والدین ہمارے لئے اپنی جان پر کھیل کر کچھ بھی کر سکتے ہیں. اور ہمیں ان کی جانوں تک کی فکر نہیں . یہ ہمارے لئے سب قربان کرتے آئے ہیں. اور آج ہمیں ان کے لئے کچھ کرنا اپنا بہت کچھ قربان کرنا لگتا ہے . ہمیں کیا ہو گیا ہے . اپنی جدید سوچ کے ساتھ اس محبت کا گلا گھونٹتے جا رہے ہیں . ہم نے تو سب کھو دیا ہے . اپنا دل خالی کرلیا ہے ، جدت کے شوق میں محبت تباہ کر کے. پرنانی سوچ چھوڑنے کے لئے ہم تو محبت ہی چھوڑ رہے ہیں .ہم تو اپنی شخصیت اپنے ہاتھوں سے اپنی سوچ کی وجہ سے تبدیل کرتے جا رہے ہیں. پر الله پاک کا شکر ہے کہ میرے الله پاک نے مجھے بچا لیا . صرف ایک احساس دلا کر. اب مجھے ان گانوں سے پیار ہے جو میرے ابو کی پسند ہیں. اب جب یہ الفاظ گھر میں گونجھتے ہیں
گھر آیا میرا پردیسی پیاس بجھی میری انکھین کی
تو مجھے یہ گانے برے نہیں لگتے. بلکے اپنے والد کی محبت سے اور انکی جدائی کے خوف سے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں. اب یہ آوازیں ، یہ چہل پہل ، پرانے خیالات اور بنیادوں سے جڑے رہنے کی سوچ مجھے گھسی پٹی نہیں لگتی بلکہ مجھے اب ان سب سے شدید محبت ہے. اب میرا دل محبت سے شرسار ہے. میں کبھی بھی کھونا نہیں چاہتی اس محبت کو.اپنے ابو کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور اپنی ماں کی گود کی گرمائش مجھے اپنے دل میں محسوس ہوتی ہے. یہ ہی سب میری طاقت ہے .الله پاک میرے والدین کا سایا میرے سر پر سلامت رکھنا .آمین .
Similar Threads:
Bookmarks