دعا


لب پر دعا ہے ، جسم ہے لرزاں
آنسووٰں کی بہتی اک لڑی
سی
آنکھیں بند ، خیال میں ماضی
زندگی کتنی گناہوں سے بھری ہے


موقع بھی ملا ہے ، احساس ندامت بھی
دل پر کاری ، ضمیر کی چوٹیں ہیں
زباں ہے مفلج ، اک ہکلاھٹ سی
روح اس پل , بڑی سہمی ڈری ہے


تجھ سے مانگتا ھوں ، تو ذل شانی ہے
کل جہاں کا واحد خداوند بھی
مانگوں معافی آخر کیسے
لغزشوں کی لمبی, قطار بڑی ہے


وسیلے ڈھونڈوں ، قصیدے سوچوں
کسی حکایت کو اپنی آڑ بنا لوں
علم بڑا ہے ، پر جسم سڑا ہے
رفتار لہو کی , ابھی سست پڑی ہے


میں خطا کا پتلا ، ھوں ابن آدم
ابھی نادم ھوں جس پر ، وہ پھر کرونگا
پر مولا تو میرا ، بس معاف کردے
اب روکونگا نفس کو
,یہ بہکتی بڑی ہے





illusionist