پہلے بھی قیامت تھی ستم کاریِ ایّام
ہیں کشتۂ غم،کشتۂ غم اب کے برس بھی
اے دل ز َدَگان ! خیر مناؤ کہ ہیں نازاں
پندارِ خدائی پہ صنم ، اب کے برس بھی
اے شیخِ کرم ! دیکھ کہ با وصفِ چراغاں
تیرہ ہیں در و بامِ حرم اب کے برس بھی
کچھ بھی ہو گلستاں میں مگر کنجِ چمن سے
ہیں دور بہاروں کے قدم اب کے برس بھی
لب و تشنہ و نومید ہیں ہم اب کے برس بھی
اے ٹھہرے ہوئے ابرِ کرم اب کے برس بھی
اس شہرِ تمنا سے فراز آئے ہی کیوں تھے
یہ حال اگر تھا تو ٹھہرتے کوئی دن اور
گو ترکِ تعلق تھا مگر جاں پہ بنی تھی
مرتے جو تجھے یاد نہ کرتے کوئی دن اور
راحت تھی بہت رنج میں ہم غم طلبوں کو
تم اور بگڑتے تو سنورتے کوئی دن اور
ہم نے تجھے دیکھا تو کسی کو بھی نہ دیکھا
اے کاش ترے بعد گزرتے کوئی دن اور
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks